دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوئے پشتارا
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
سرگشتہ ودرماندہ بے ہمت و ناکارہ
پسماندہ وسرگرداں بے مایہ وبے چارہ
شیطاں کا ستم خوردہ اس نفس کا دکھیارا
ہر سمت سے غفلت کا گھیرے ہوئے اندھیارا
آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوئے پشتارا
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
جذبات کی موجوں میں لفظوں کی زباں گم ہے
عالم ہے تحیر کا یارائے بیاں گم ہے
مضمون جو سوچا تھا کیا جانے کہاں گم ہے
آنکھوں میں بھی اشکوں کا اب نام و نشاں گم ہے
سینے میں سلگتا ہے رہ رہ کے اک انگارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
آیا ہوں ترے در پر خاموش نوا لے کر
نیکی سے تہی دامن انبارِ خطا لے کر
لیکن تری چوکھٹ سے امیدِ سخا لے کر
اعمال کی ظلمت میں توبہ کی ضیا لے کر
سینے میں تلاطم ہے دل شرم سے صدپارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
امید کا مرگز یہ رحمت سے بھرا گھر ہے
اس گھر کا ہر اک ذرہ رشکِ مہ واختر ہے
محروم نہیں کوئی جس در سے یہ وہ در ہے
جو اس کا بھکاری ہے قسمت کا سکندر ہے
یہ نور کا قلزم ہے یہ امن کا فوّارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
یارب! مجھے دنیا میں جینے کا قرینہ دے
میرے دلِ ویراں کو الفت کا خزینہ دے
سیلابِ معاصی میں طاعت کا سفینہ دے
ہستی کے اندھیروں کو انوارِ مدینہ دے
پھر دہر میں پھیلادے ایمان کا اجیارا
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
یارب میری ہستی پر کچھ خاص کرم فرما
بخشے ہوئے بندوں میں مجھ کو بھی رقم فرما
بھٹکے ہوئے راہی کا رخ سوئے حرم فرما
دنیا کو اطاعت سے گلزارِ ارم فرما کردے
میرے ماضی کے ہر سانس کا کفارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوئے پشتارا
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ